حیدرآباد3نومبر(آئی این ایس انڈیا؍ایس اونیوز)صدرتلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کیپٹن این اتم کمار ریڈی نے یقین دلایا ہے کہ آنے والی حکومت کانگریس کی ہے 12دسمبرکوحلف برداری ہوگی اور اقلیتوں کے لیے آبادی کے تناسب سے بجٹ میں سب پلان بنائے گی۔ اور ان کی تعلیمی و معاشی ترقی کو ترجیح دے گی۔
انہو ں نے کہا کہ کے سی آر نے ہمیشہ مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے وہ بی جے پی ایجنٹ ہیں اوراب کے بعد بھی کیا ان کو مسلمانو ں کے ووٹ مانگنے کا حق ہے۔ اگر بی جے پی پھر برسر اقتدار آگئی تو وہ دستور کو بدل دیں گے۔ آر ایس ایس نے آزادی کی لڑائی میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ جمیعتہ علمأ اس لڑائی میں آگے تھی جو ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے۔ آج ملک کا مستقبل خطرہ میں ہے‘ لنچنگ کیا ہے‘ لو جہاد کیا ہے‘ اقلیتوں کے دستوری حقوق پر جو حملے ہورہے ہیں وہ شرم کی بات ہے۔کے سی آر نریندر مودی کی پیروی کرتے ہیں‘ رمضان میں جو کرتے ہیں وہ دھوکہ دیناہے۔وہ آج دفتر جمیعتہ علمأ عنبرپیٹھ میں جمیعتہ علمأ تلنگانہ کے ضلعی عہدیداروں کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 19اپریل 2014میں شاد نگر میں کے سی آر نے چار مہینے کے اندر12 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا تھا۔مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی چال ہے۔ جس نے سراسر دھوکہ دیا ہے کیا اس کو ووٹ مانگنے کاحق ہے۔ صدارتی انتخابات میں کٹر ہندوتوا امیدوار کی تائیدکی۔ نائب صدر کے انتخابات میں بھی ایسا ہی کیا۔ نوٹ بندی اورجی ایس ٹی میں کی تائید کی جس سے سار ے ملک خصوصاً مسلمانوں کو بڑی تکلیف ہوئی۔کیپٹن اتم کمار ریڈی نے کہا کہ لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کا ساتھ دینے کے لیے عاجلانہ انتخابات کروائے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آلیر انکاؤنٹر میں ہم نے کے سی آر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کم سے کم رپورٹ تو منگوائیں’مکہ مسجد دھماکوں میں ملزمین کو جو بری کیا گیا اس کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی گئی۔ ساڑھے چار سال کے بجٹ میں 6لاکھ75ہزار کڑوڑ روپئے کے بجٹ میں مسلمانوں کے لئے 3,000کڑوڑ روپئے خرچ کئے جو 12فیصد کی آبادی کے لئے نصف فیصد سے بھی کم ہے۔ اقلیتوں کو لون کے لئے لاکھوں میں درخواستیں آرہی ہیں لیکن ہزاروں میں بھی لون نہیں دے گئے۔ ایک بھی اردو ٹیچر کا تقرر نہیں کیا گیا۔ وقف بورڈ کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی گئیں‘لیکن کچھ نہیں کیا گیا۔ اردو اکیڈیمی کا صدر نشین تقرر کرنے کے لئے چار سال تین مہینے لگے‘ او ر دوسرے دن ہی اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ مسلمانوں کی بیروزگاری اور ناخواندگی کو دور کرنے کی ذمہ داری سب پر ہے۔ اقلیتوں سے اتناپریم ہے کہ جب چیف منسٹر بنے کہ 92اقلیتی تعلیمی ادارے تھے جن میں سے 80بند کردےئے گئے۔ پرانا شہر میں میٹرو ریل کیوں نہیں آتی۔اگر ملک میں دستورکاتحفظ کرناہے اور ملک کو سکیولر بنائے رکھنا ہے تو اس کے لئے بی جے پی کو ہرانا ہے اور یہاں ٹی آر ایس کو شکست دینا ضروری ہے۔ کانگریس حکومت میں سب کے لئے دروازے کھلے رہیں گے۔ اقلیتوں کے تحفظ و سلامتی کے پابند ہیں۔ تعلیم اور خود روزگار میں ان کو ترجیح دیں۔ راہول گاندھی کا وعدہ ہے کہ کانگریس مسلم پرسنل لامیں کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ بچپن سے ہی مسلم فرقہ سے جڑے ہوئے ہیں اور مذہب کی روایات کا احترام کرتے ہیں وہ فوج کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر سیاست میں آئے ہیں‘ سونیا گاندھی اور راہل کاندھی کا ماننا ہے کہ ایک دوسرے کے پرسنل لا کا احترام کرتے ہؤے آگے بڑھیں۔ 70سال کی آزادی میں جب تک کانگریس برسر اقتدار تھی کسی شہری نے دوسرے سے یہ سوال اٹھانے کی ہمت نہیں کی کہ وہ کیا کھاتے ہیں یا کس سے شادی کرتے ہیں‘ لیکن ساڑھے چار سال میں کیا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چار فیصد تحفظات کے باعثمسلمان بچے ڈاکٹر بنے۔ صدر جمیعتہ علمأ تلنگانہ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے خطاب کرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاست کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین دے کہ وہ کسی صورت میں کسی ایسی قانون سازی یا کسی ایسے اقدام کی راست یا بالواسطہ تائید و حمایت نہ کرے‘ جن سے شریعت یا مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہوتی ہو۔ اس سلسلہ میں جمیعتہ نے تین طلاق معاملہ میں کانگریس کے رول کا ذکر کیا اور کہا کہ لوک سبھا میں کانگریس نے خاموشی اختیار کی اور راجیہ سبھا میں اس کو رکوا دیا۔ صدر جمیعتہ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ جمیعتہ علمأ کانگریس کے سامنے صرف چندمطالبات ہی پیش کرے گی اور اس سلسلہ میں واضح طمانیت حاصل کرنا چاہے گی۔
یادداشت میں کہا گیا کہ کانگریس حکومت نے جمیعتہ علمأ کی نمائندگی پر مسلمانوں کو جو چار فیصد تحفظات دےئے ہیں‘ اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے‘ کانگریس پارٹی برسر اقتدار آنے کے بعد اس مقدمہ کی حکومت کی جانب سے موثر انداز میں پیروی کی جائے کہ کم از کم چار فیصد تحفظات کی حفاظت کیجئے۔ ‘جمیعتہ بھی اس مقدمہ کی ایک فریق ہے۔ جمیعتہ نے مطالبہ کیا کہ مکہ مسجد بم دھماکوں کے مقدمہ کی از سر نو سماعت کی جائے کیونکہ فاضل جج نے دھماکوں کے ملزمین کو با عزت بری کردیا ہے جس کے بعد یہ شبہ پید ا ہورہا ہے کہ جب پہلے چند ملزمین کو بری کیا گیا اور اس کے بعد حال ہی میں دیگر ملزمین کو بری کیا گیا ہے۔ جب ملزمین بری کردیئے گئے اور مقدمہ بند ہوگیا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دھماکے کس نے کئے تھے۔ اس فیصلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک حقیقی خاطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو سزا نہیں ہوتی اس وقت تک انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوگی۔ اسی طرح جمیعتہ نے آلیر انکاؤنٹر کی بھی منصفانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ بات عقل وفہم سے بالاتر ہے کہ کس طرح ان نوجوانوں نے پولیس کی تحویل میں ہتھکڑی میں بندرہتے ہوئے ویان کے اندر پولیس پر حملہ کیا۔ حکومت نے اس واقعہ میں ملوث پولیس ملازمین کو نہ صرف کلین چٹ دی ہے ان کو ترقیوں سے بھی نوازا ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ خاطیوں کو سزا دی جائے۔
یادداشت میں مزید کہا گیا کہ چیف منسٹر شری کے چندر شیکھر راؤ کی ہدایت پر وقف بورڈ کے ریکارڈ کو مہر بند کیا گیا’ لیکن طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔اور نہ ہی خاطیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد حکام نے اس سیکشن کو کھلوایا اور نہ جانے کیوں اس کو پھر مقفل کردیا ‘ اس معاملہ کی مکمل اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔ دینی مدارس کو نہ فنڈزدے جائیں اور نہ ان میں دخل نہ دیا جائے۔ اقامتی اسکولوں میں دینی تعلیم کاانتظام نہیں ہے۔ نصاب میں ہر مذہب کے بچوں کے لئے ان کی مذہب کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ مسلم اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ اس یادداشت پر مولاناحافظ پیر شبیر احمد کے علاوہ مولانا سید اکبر صاحب سرپرست جمیعتہ‘ جناب پیر خلیق احمد صابر ناظم جمیعتہ ‘ مولانا سید بشیر احمد قا سمی ( عادل آباد) ‘ مفتی یونس قاسمی ( کریم نگر ) ‘ مولانانعیم کو ثر رشا دی ( محبوب نگر ) ‘ مولانا سید احسن الدین ( نلگنڈہ) ‘ مولانا سعید احمد قاسمی ( کھمم) ‘ مولانا مفتی عبدالمغنی ( حیدرآباد) ‘ مولانا عبدالعظیم قاسمی ( ورنگل ) ‘ مولانا مقصود احمد طاہر ( رنگا ریڈی ) مولانا عبدالقوی صا حب حیدرآباد ،مولانا مصدق لقاسمی صا حب ،مولانا عبدالستار صا حب قا سمی ورنگل، مولانا عبداللہ اطہر صا حب ضلع وقار آباد ، مولانا عبدالقادر صا حب ضلع سوریاپیٹھ ،محترم جناب زبید صا حب ضلع کتہ گو ڈم ، حافظ شفیع صا حب سنگا ریڈی ،مولانا قطب الدین صا حب قا سمی سکندرآباداور دوسروں نے دستخط کیا ہے۔ اس اجلاس میں تلنگانہ کے تمام اضلاع کے عہدیدار اور قائیدین شریک تھے ‘ مولانا حافظ پیر شبیراحمد نے بتایا کہ تلنگانہ میں جمیعتہ کے ارکان کی تعداد 6لاکھ 75ہزار سے زیاد ہ ہے اور ہر دوسال میں ایک مرتبہ رکنیت سازی ہوتی ہے۔ جبکہ اسکے حامیوں کی تعداد بے شمار ہے۔ حافظ پیر خلیق احمد صابر ناظم جمیعتہ نے خیر مقدم کیا۔ اس موقعہ پر کانگریس قائیدین مسرز ملو روی‘ ظفر جاوید‘ عثمان شہید‘ پیر ارشاد احمد ناصر‘ عامر جاوید اور دوسرے موجود تھے۔